یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
بھرا ہے موئے بہ مو سحر سامری جس میں

یہ لعل لخت جگر ہے وہ لعل بیش بہا
کہ کام کرتی نہیں چشم جوہری جس میں

دیا ہے میں نے دل ایسے کو اور پریشاں ہوں
نہ مہر ہے نہ محبت نہ دلبری جس میں

خدا دو چار نہ ہم سے کرے کبھی اس کو
نکلتی ہو تری آنکھوں سے کافری جس میں

ہٹے ہے مانیؔ سے لیلیٰ کہ وہ ورق تو دکھا
لکھی ہے صورت مجنوں کی لاغری جس میں

غضب ہے تو نے نہ دیکھا وہی مرا دل تھا
بندھی ہوئی تھی ترے تیر کی سری جس میں

کسی سے کام میاں مصحفیؔ نہ کچھ رکھیے
وہ کام کیجئے ہو اپنی بہتری جس میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse