رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا

مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے
جب ورق یار کی تصویر دورو کا نکلا

یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام
نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا

مر گئی سرو پہ جب ہو کے تصدق قمری
اس سے اس دم بھی نہ طوق اپنے گلو کا نکلا

مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse