میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں
جب اس کے شکل و شمائل سے بات کرتا ہوں

بہ وقت ذبح بھی ہلتے رہیں ہیں لب میرے
ز بسکہ خنجر قاتل سے بات کرتا ہوں

مری زباں کو مرا ہم نوا ہی سمجھے ہے
میں نیم ذبح ہوں بسمل سے بات کرتا ہوں

نہ ناقہ اور نہ محمل رہا میں سودائی
ہنوز ناقہ و محمل سے بات کرتا ہوں

ہے ان دنوں مری آواز میں یہاں تک ضعف
کہ اپنے ساتھ بھی مشکل سے بات کرتا ہوں

سمجھ نہ موج مرے منہ میں ہیں ہزاروں زباں
میں بحر ہوں لب ساحل سے بات کرتا ہوں

مزہ ملے ہے مجھے اس کی ہم کلامی کا
میں اس کے در کے جو سائل سے بات کرتا ہوں

بہ وقت آئینہ دیدن بلاؤں میں تو کہے
میں اپنے عاشق مائل سے بات کرتا ہوں

جو مصحفیؔ کی سفارش کریں تو بولے وہ شوخ
میں ایسے ننگ قبائل سے بات کرتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse