تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
Appearance
تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
زہر بھی تجھ کو کیا نہیں ملتا
جس کو وہ زلف مار ڈالے ہے
سر مو خوں بہا نہیں ملتا
اور سب کچھ ملے ہے دنیا میں
لیکن اک آشنا نہیں ملتا
دل دیوانہ رات سے گم ہے
کہیں اس کا پتا نہیں ملتا
شیخ کلبے سے اٹھ نکل باہر
گھر میں بیٹھے خدا نہیں ملتا
درد و غم کو بھی ہے نصیبہ شرط
یہ بھی قسمت سوا نہیں ملتا
اک نے پوچھا یہ مصحفیؔ سے بھلا
کیوں تو اے بے وفا نہیں ملتا
ہنس کے بولا کہ او میاں اس سے
کیا کروں دل مرا نہیں ملتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |