تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے
کبھو پاس آئے ہے میرے کبھو پھر بھاگ جاتا ہے

خدا جانے تجھے اس کی خبر ہے یا نہیں ظالم
کہ وہ اک آن میں کیا کیا سمیں مجھ کو دکھاتا ہے

بلائیں اس کی میں لیتا ہوں چٹ چٹ اٹھ کے جس ساعت
مری چالاکیوں کو دیکھے ہے اور مسکراتا ہے

جو اٹھتا ہوں تو کہتا ہے "کدھر جاتا ہے ایدھر آ"
جو بیٹھوں ہوں تو کہتا ہے کہ "میں جاتا ہوں آتا ہے"

جو روتا ہوں تو کہتا ہے تو کیوں روتا ہے دیوانے
جو سر زانو پہ رکھتا ہوں تو ہاتھوں سے اٹھاتا ہے

جو جاگوں ہوں تو کہتا ہے "کہیں اب سو بھی رہ ناداں"
جو سوتا ہوں تو چٹکی لے کے اک دل میں جگاتا ہے

کبھی ہو جائے ہے غائب نظر سے بات کے کہتے
کبھی پھر سامنے ہو کر کھڑا باتیں بناتا ہے

کبھی دکھلائے ہے پنڈے کا لطف اور گات کا عالم
کبھی نزدیک آ بالوں کی اپنے بو سنگھاتا ہے

غرض اے مصحفیؔ میں کیا کہوں شب تا سحر یو ہیں
نہ اس کو چین آتا ہے نہ مجھ کو چین آتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse