پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
جان غم دیدہ کو جو گھن سا لگا

اس گلی میں جو میں اٹھا گاہے
پائے خوابیدہ مجھ کو سن سا لگا

اس نے جس وقت اور سر کھینچا
نخل قد اس کا سرو بن سا لگا

اس کے چھلے کے ہیں جو گل کھائے
داغ ہر اک بدن پہ ہن سا لگا

آخر عمر اپنی نظروں میں
جامۂ زندگی کہن سا لگا

کشتیٔ چشم تر کھنچی ہے ادھر
ہے جدھر تار اشک گن سا لگا

یار دھرماتما کا پیار کے ساتھ
بوسہ دینا بھی مجھ کو پن سا لگا

جب دل سوختہ پہ زخم مژہ
نظر آیا وہ صاف پن سا لگا

میں سنا مصحفیؔ کو پیری میں
مجھ کو خیلے وہ خوش سخن سا لگا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.