ہر چند کہ ہو مریض محتاط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر چند کہ ہو مریض محتاط
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ہر چند کہ ہو مریض محتاط
کیا کر سکے با فساد اخلاط

ادریس کی سالہا رہی ہے
کوچے میں ترے دکان خیاط

رخ پر ترے دیکھ سبزۂ خط
حیران ہیں سب جہاں کے خطاط

جتنی مرے دل میں ہے تیری چاہ
کم ہوگی نہ اس سے نیم قیراط

خوں سے ترے بسملوں کے دیکھی
کوچے میں ترے بچھی سقرلاط

قد اس کا نہیں اگرچہ کوتہ
ہے جسم کی لاغری بہ افراط

اے یارو نہ مصحفیؔ کو کوئی
سمجھو نہ کم از رشید وطواط

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse