لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں
ہم لوگ وحشی خبطی دیوانے باؤلے ہیں

یہ سحر کیا کیا ہے بالوں کی درہمی نے
جو اس پری پر اپنے بیگانے باؤلے ہیں

جی جھونکتا ہے کوئی آتش میں ناحق اپنا
جلتے ہیں شمع پر جو پروانے باؤلے ہیں

عصمت کا اپنی اس کو جب آپھی غم نہ ہووے
لگتے ہیں ہم جو ناحق غم کھانے باؤلے ہیں

اس مے کا ایک قطرہ سوراخ دل کرے ہے
بھر بھر جو ہم پئیں ہیں پیمانے باؤلے ہیں

گردش سے پتلیوں کی سرگشتہ ہے زمانہ
مستی سے اس نگہ کی مے خانے باؤلے ہیں

جاتے ہیں اس گلی میں لڑکوں کو ساتھ لے کر
میاں مصحفیؔ بھی یارو کیا سیانے باؤلے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.