ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری
ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری
اللہ مفلسی میں یہ کچھ شان شاعری
روندا اسے تمام مرے رخش کلک نے
سودا سے بچ رہا تھا جو میدان شاعری
میں اور لے کے سودہ نمک اس میں بھر دیا
تھا اس کا کم نمک جو نمکدان شاعری
ہندوستاں کے گردن خورد و بزرگ پر
ہے سچ تو یہ مرا ہی ہے احسان شاعری
پیرو ہیں میری طرز کے یاں چھوٹے اور بڑے
ملک سخن کا ہوں میں سلیمان شاعری
رہتے ہیں اینچا تانی میں اب اس کے اور یار
تھا ہاتھ میں مرے جو گریبان شاعری
رکھتی ہے نوک خامۂ جادو رقم ہنوز
مژگان تر سے تازہ گلستان شاعری
موندی جو آنکھ میں نے تو چشم زمانہ سے
چھپ جائے گا وونہی مہ تابان شاعری
میں ابتدائے عمر میں مدت تلک بہت
چھانا ہے فارسی کا صفاہان شاعری
بعد اس کے ریختے کی بھی رکھی ہے وہ بنا
حیراں ہیں جس کے نقش طرازان شاعری
کچھ کچھ کہے ہیں پھر عربی میں جو شعر و نظم
اس میں بھی بن گیا ہوں میں سحبان شاعری
دن رات میرے ناخن نوک قلم میں ہیں
لاکھوں طریق و شیوہ و عنوان شاعری
ہر سفلہ کا دہن یہ نہیں ہے کہ ہو سکے
میرے سوائے شمع شبستان شاعری
جس روز میرے جسم سے نکلے گی میری جاں
یہ جانیو تو آج گئی جان شاعری
لاکھوں ترانہ سنج ہوئے اس کے ریزہ چیں
اے مصحفیؔ مرا ہی ہے وہ خوان شاعری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |