طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے
اپنے ہی واسطے بنیاد خرابی ہوتے

وہ جو سوتے ہیں فراغت سے انہوں کے سینے
کاش یک شب ہدف تیر شہابی ہوتے

مے نہ پیتے کبھی گل زار میں ہم یار بغیر
پھول شبو کے جو یک دست گلابی ہوتے

دل سے گرد غم کونین تو دھوئی جاتی
کاش ہم کشتۂ شمشیر دو نابی ہوتے

گر سمجھتے وہ کبھی معنیٔ متن قرآں
چہرے شراح کے ہرگز نہ کتابی ہوتے

عمر کے فوت کا ہم مرثیہ پڑھتے جو کبھو
آن کر خضر و مسیح اپنے جوابی ہوتے

اپنی قسمت میں تو محرومیٔ جاوید تھی آہ
ورنہ ہم شیفتۂ روئے نقابی ہوتے

روکشی کرنے کو ہم بحر سے جاتے مجنوں
آبلے پائے جنوں کے جو حبابی ہوتے

آتش دل ہی فروزاں نہ ہوئی ورنہ ہمیں
الف تیغ بتاں سیخ کبابی ہوتے

ہم کو دشوار تھا پھر روئے زمیں پر رہنا
کوکب بخت ہمارے جو شہابی ہوتے

کوئے عشاق سے گزرا نہ وہ کافر ورنہ
لوگ رستے کے بہ تقلید شرابی ہوتے

ماہ ہی بس ہے ہمیں گو کہ نہ ہووے خورشید
مردہ کیوں ڈھونڈتے فرنی کی رکابی ہوتے

نیم رنگ اس کی حنا دیکھ نہ مرتے گر ہم
پھول تربت کے ہمارے نہ گلابی ہوتے

مصحفیؔ نالہ خموشی سے کیا میں نے بدل
تا کجا تار نفس تار ربابی ہوتے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.