چشم نے کی گوہر افشانی صریح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم نے کی گوہر افشانی صریح
by غلام علی ہمدانی مصحفی

چشم نے کی گوہر افشانی صریح
ہو گئی یہ ہم سے نادانی صریح

منہ چھپا قاتل کہ تیری ہی طرف
تک رہی ہے چشم قربانی صریح

کربلائے عشق میں عشاق کی
تیغ و خنجر پر ہے مہمانی صریح

آئینے میں بھی نہیں پڑتا ہے عکس
ہے تری تصویر لا ثانی صریح

ژالہ ساں کیوں کر گھلے جاویں نہ ہم
ہے جو آنسو میں پریشانی صریح

کیونکہ استقلال کا دم ماریں ہم
استخواں اپنے تو ہیں پانی صریح

مزرع دل کس طرح سرسبز ہو
برق یاں کرتی ہے جولانی صریح

ماہ نو ہے کس کے در کا سجدہ پاش
رک گئی ہے اس کی پیشانی صریح

مصحفیؔ دم توڑے ہے مرتا نہیں
کر رہا ہے یہ گراں جانی صریح

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse