Author:محمد اقبال
Appearance
محمد اقبال (1877 - 1938) |
اردو شاعر، مصنف |
تصانیف
[edit]شاعری
[edit]بانگ درا (1924)
[edit]- ہمالہ
- گُلِ رنگیں
- عہدِ طفلی
- مرزا غالِب
- ابرِ کوہسار
- ایک مکڑا اور مکھّی
- ایک پہاڑ اور گلہری
- ایک گائے اور بکری
- بچے کی دُعا
- ہمدردی
- ماں کا خواب
- پر ندے کی فریاد
- خُفتگانِ خاک سے استفسار
- شمع و پروانہ
- عقل و دِل
- صدائے درد
- آفتاب
- شمع
- ایک آرزو
- آفتابِ صبح
- درد عشق
- گُل پژمردہ
- سیّدکی لوحِ تُربت
- ماہِ نَو
- اِنسان اور بزمِ قُد رت
- پیامِ صبح
- عشق اور موت
- زُہد اور رندی
- شاعر
- دل
- موجِ دریا
- رُخصت اے بزمِ جہاں
- طفلِ شِیر خوار
- تصویرِ درد
- نا لۂ فراق
- چاند
- بلال
- سر گزشتِ آدم
- ترانۂ ہندی
- جُگنو
- صُبح کا ستارہ
- ہندوستانی بچوں کا قومی گیت
- نیا شوالا
- داغ
- ابر
- ایک پرندہ اور جگنو
- بچہّ اور شمع
- کنارِ راوی
- اِلتجائے مُسافر
- گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
- نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
- عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
- لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
- کیا کہوں اپنے چمن سے مَیں جُدا کیونکر ہوا
- انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں
- ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
- کہوں کیا آرزوئے بے دلی مُجھ کو کہاں تک ہے
- جنھیں مَیں ڈُھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
- ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
- کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے
- سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں
- مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
- محبت
- حقیقتِ حُسن
- پیام
- سوامی رام تیرتھ
- طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام
- اخترِ صُبح
- حُسن و عشق
- کی گود میں بِلّی دیکھ کر
- کلی
- چاند اور تارے
- وِصال
- سُلَیمٰی
- عاشقِ ہرجائی
- کوششِ نا تمام
- نوائے غم
- عشرتِ امروز
- انسان
- جلوۂ حُسن
- ایک شام
- تنہائی
- پیامِ عشق
- فراق
- عبد القادر کے نام
- صِقلیہ
- زندگی انساں کی اک دَم کے سوا کچھ بھی نہیں
- الٰہی عقلِ خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سِکھا دے
- زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھّے گا گفتگو کا
- چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں
- یوں تو اے بزمِ جہاں! دِلکش تھے ہنگامے ترے
- مثالِ پرتوِ مے طوفِ جام کرتے ہیں
- زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
- بلادِ اسلامیہ
- ستارہ
- دوستارے
- گورستانِ شاہی
- نمودِ صبح
- تضمین بر شعرِ انیسی شاملو
- فلسفۂ غم
- پُھول کا تحفہ عطا ہونے پر
- ترانۂ ملی
- وطنیّت
- ایک حاجی مدینے کے راستے میں
- قطعہ
- شکوہ
- چاند
- رات اور شاعر
- بزمِ انجم
- سیرِ فلک
- نصیحت
- رام
- موٹر
- انسان
- خطاب بہ جوانانِ اسلام
- غرۂ شوال یا ہلال عید
- شمع اور شاعر
- مسلم
- حضورِ رسالت مآب میں
- شفاخانۂ حجاز
- جوابِ شکوَہ
- ساقی
- تعلیم اور اس کے نتائج
- قربِ سلطان
- شاعر
- نو یدِ صبح
- دُعا
- عید پر شعر لِکھنے کی فرمائش کے جواب میں
- فاطمہ بنت عبد اللہ
- شبنم اور ستارے
- مُحاصرۂ ادَرنہ
- غلام قادر رُہیلہ
- ایک مکالمہ
- میں اور توُ
- تضمین بر شعرِ ابوطالب کلیم
- شبلی وحالی
- اِرتقا
- صِدّیق
- تہذیبِ حاضر
- والدہ مرحومہ کی یاد میں
- شُعاعِ آفتاب
- عُرفی
- ایک خط کے جواب میں
- نانک
- کُفر و اسلام
- بلال
- مسلمان اور تعلیمِ جدید
- پُھولوں کی شہزادی
- تضمین بر شعرِ صائب
- فردوس میں ایک مکالمہ
- مذہب
- جنگِ یر موک کا ایک واقعہ
- مذہب
- پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ
- شبِ معراج
- پُھول
- شیکسپئیر
- میں اورتُو
- اسِیری
- دریُوزۂ خلافت
- ہمایوں
- خِضرِ راہ
- طلوعِ اِسلام
- اے بادِ صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
- یہ سرودِ قُمری و بُلبل فریبِ گوش ہے
- نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
- پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر
- پھر بادِ بہار آئی، اقبال غزل خواں ہو
- کبھی اے حقیقتِ منتظَر! نظر آ لباسِ مجاز میں
- تہِ دام بھی غزل آشنا رہے طائرانِ چمن تو کیا
- گرچہ تُو زندانیِ اسباب ہے
- مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں
- لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
- شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
- یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوش مند
- تعلیمِ مغربی ہے بہت جُرأت آفریں
- کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
- تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ
- انتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک
- ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
- اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
- ہاتھوں سے اپنے دامن دُنیا نکل گیا
- وہ مِس بولی اِرادہ خودکشی کا جب کِیا میں نے
- ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر
- ہندوستاں میں جزوِ حکومت ہیں کونسلیں
- ممبری امپِیریَل کونسل کی کچھ مشکل نہیں
- دلیلِ مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی
- فرما رہے تھے شیخ طریقِ عمل پہ وعظ
- دیکھئے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک
- گائے اک روز ہوئی اُونٹ سے یوں گرمِ سخن
- رات مچّھر نے کَہ دیا مجھ سے
- یہ آیۂ نو، جیل سے نازل ہوئی مجھ پر
- جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست
- محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے
- شام کی سرحد سے رُخصت ہے وہ رندِ لم یزل
- تکرار تھی مزارع و مالک میں ایک روز
- اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
- کارخانے کا ہے مالک مَردکِ ناکردہ کار
- سُنا ہے مَیں نے، کل یہ گفتگو تھی کارخانے میں
- مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
بال جبریل (1935)
[edit]- اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
- پُھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
- میری نوائے شوق سے شورِ حریمِ ذات میں
- ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
- اگر کج رَو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا
- گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
- دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
- اثر کرے نہ کرے، سُن تو لے مِری فریاد
- جوانوں کو مری آہِ سَحر دے
- کیا عشق ایک زندگیِ مستعار کا
- پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
- تری دنیا جہانِ مُرغ و ماہی
- دگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
- کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں مَیں
- لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
- وہی اصلِ مکان و لامکاں ہے
- مِٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
- کبھی آوارہ و بے خانماں عشق
- متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
- کبھی تنہائیِ کوہ و دمن عشق
- تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
- عطا اسلاف کا جذبِ دُروں کر
- ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہُوا لبریز
- یہ نکتہ میں نے سیکھا بُوالحسن سے
- وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی
- خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
- اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
- خدائی اہتمامِ خشک و تر ہے
- اک دانشِ نُورانی، اک دانشِ بُرہانی
- یہی آدم ہے سُلطاں بحر و بَر کا
- یا رب! یہ جہانِ گُزَراں خوب ہے لیکن
- سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
- یہ کون غزل خواں ہے پُرسوز و نشاط انگیز
- وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا ہے جُنوں
- عالِم آب و خاک و باد! سِرِّ عیاں ہے تُو کہ مَیں
- تُو ابھی رہ گزر میں ہے، قیدِ مقام سے گزر
- امینِ راز ہے مردانِ حُر کی درویشی
- پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
- مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
- عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زِیر و بم
- دل سوز سے خالی ہے، نِگہ پاک نہیں ہے
- ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
- پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
- یہ حُوریانِ فرنگی، دل و نظر کا حجاب
- دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار کرّاری
- خودی کی شوخی و تُندی میں کبر و ناز نہیں
- میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
- زمِستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
- یہ دَیرِ کُہن کیا ہے، انبارِ خس و خاشاک
- کمالِ تَرک نہیں آب و گِل سے مہجوری
- عقل گو آستاں سے دُور نہیں
- خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
- یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی
- تری نگاہ فرومایہ، ہاتھ ہے کوتاہ
- خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
- نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
- نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
- تُو اے اسیرِ مکاں! لامکاں سے دور نہیں
- خِرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
- افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
- ہر شے مسافر، ہر چیز راہی
- ہر چیز ہے محوِ خود نمائی
- اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
- خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
- جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
- مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
- نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی
- فطرت کو خِرد کے رُوبرو کر
- یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری
- تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سِحرِ قدیم
- ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
- ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
- خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
- مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟
- حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
- رہا نہ حلقۂ صُوفی میں سوزِ مشتاقی
- ہُوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
- یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ
- نہ تخت و تاج میں نَے لشکر و سپاہ میں ہے
- فِطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک
- کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
- کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمّازی
- نے مُہرہ باقی، نے مُہرہ بازی
- گرمِ فغاں ہے جَرس، اُٹھ کہ گیا قافلہ
- مِری نوا سے ہُوئے زندہ عارف و عامی
- ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو
- کھو نہ جا اس سحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش
- تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی
- ہے یاد مجھے نکتۂ سلمانِ خوش آہنگ
- فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
- کمالِ جوشِ جُنوں میں رہا مَیں گرمِ طواف
- شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
- رہ و رسمِ حرم نا محرمانہ
- ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا
- مکانی ہُوں کہ آزادِ مکاں ہُوں
- خودی کی خلوتوں میں گُم رہا مَیں
- پریشاں کاروبارِ آشنائی
- یقیں، مثلِ خلیل آتش نشینی
- عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
- کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی
- ہر اک ذرّے میں ہے شاید مکیں دل
- ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
- نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
- خودی کی جلوَتوں میں مُصطفائی
- نِگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ و بُو میں
- جمالِ عشق و مستی نَے نوازی
- وہ میرا رونقِ محفل کہاں ہے
- سوارِ ناقہ و محمل نہیں مَیں
- ترے سِینے میں دَم ہے، دل نہیں ہے
- ترا جوہر ہے نُوری، پاک ہے تُو
- محبّت کا جُنوں باقی نہیں ہے
- خودی کے زور سے دُنیا پہ چھا جا
- چمن میں رختِ گُل شبنم سے تر ہے
- خرد سے راہرو روشن بصر ہے
- دُعا
- دمِ عارف نسیمِ صبح دم ہے
- مَسجدِقُرطُبہ
- قید خانے میں معتمدؔکی فریاد
- عبد الرّحمٰن اوّل کا بویا ہُوا کھجور کا پہلا درخت
- رگوں میں وہ لہُو باقی نہیں ہے
- ہسپانیہ
- کھُلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی
- طارق کی دُعا
- زمانے کی یہ گردش جاودانہ
- لینن
- فرشتوں کا گیت
- فرمانِ خدا
- حکیمی، نامسلمانی خودی کی
- ذوق و شوق
- پَروانہ اور جُگنو
- جاوید کے نام
- گدائی
- مُلّا اور بہشت
- دین وسیاست
- اَلْاَرْضُ للہ!
- ایک نوجوان کے نام
- نصیحت
- لالۂ صحرا
- اقبالؔ نے کل اہلِ خیاباں کو سُنایا
- ساقی نامہ
- زمانہ
- فرشتے آدم کو جنّت سے رُخصت کرتے ہیں
- رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے
- فطرت مری مانندِ نسیمِ سحرَی ہے
- پِیرومُرید
- ترا تن رُوح سے ناآشنا ہے
- جبریل واِبلیس
- کل اپنے مُریدوں سے کہا پِیرِ مغاں نے
- اذان
- اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
- محبت
- ستارے کاپیغام
- جاوید کے نام
- فلسفہ ومذہب
- یورپ سے ایک خط
- نپولین کے مزار پر
- مسولینی
- سوال
- پنچاب کے دہقان سے
- نادِر شاہ افغان
- خوشحال خاںکی وصیّت
- تاتاری کا خواب
- حال ومقام
- ابوالعلامعرّیؔ
- سنیما
- پنچاب کے پِیرزادوں سے
- سیاست
- فَقر
- خودی
- جُدائی
- خانقاہ
- اِبلیس کی عرضداشت
- لہُو
- پرواز
- شیخِ مکتب سے
- فلسفی
- شاہِیں
- باغی مُرید
- ہارون کی آخری نصیحت
- ماہرِ نفسیات سے
- یورپ
- آزادیِ افکار
- شیر اور خچّر
- چیونٹی اورعقاب
ضربِ کلیم (1936)
[edit]- نہیں مقام کی خُوگر طبیعتِ آزاد
- اعلیٰحضرت نوّاب سرحمید اللہ خاں فرمانروائے بھوپال کی خدمت میں
- ناظرین سے
- تمہید
- صُبح
- لا الٰہ الاّ اللہ
- تن بہ تقدیر
- مِعراج
- ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام
- زمین و آسماں
- مسلمان کا زوال
- عِلم و عِشق
- اِجتہاد
- شُکر و شکایت
- ذِکر وفِکر
- مُلّائے حَرم
- تقدیر
- توحید
- علم اور دین
- ہِندی مسلمان
- آزادیِ شمشیر کے اعلان پر
- جِہاد
- قُوّت اور دین
- فَقر و مُلوکیّت
- اِسلام
- حیاتِ اَبدی
- سُلطانی
- صُوفی سے
- اَفرنگ زدہ
- تصوّف
- ہِندی اِسلام
- غزل
- دُنیا
- نماز
- وَحی
- شکست
- عقل و دِل
- مستیِ کردار
- قَبر
- قلندر کی پہچان
- فلسفہ
- مردانِ خُدا
- کافر و مومن
- مہدیِ برحق
- مومن
- محمد علی باب
- تقدیر
- اے رُوحِ محمدؐ
- مَدنِیَّتِ اسلام
- اِمامت
- فَقر و راہبی
- غزل
- تسلیم و رِضا
- نکتۂ توحید
- اِلہام اور آزادی
- جان و تن
- لاہور و کراچی
- نُبوّت
- آدم
- مکّہ اور جنیوا
- اے پِیرِ حرم
- مہدی
- مردِ مسلمان
- پنجابی مسلمان
- آزادی
- اِشاعتِ اسلام فرنگستان میں
- لا و اِلّا
- امُرَائے عرب سے
- احکامِ الٰہی
- موت
- قُم بِاذنِ اللہ
- مقصود
- زمانۂ حاضر کا انسان
- اقوامِ مشرق
- آگاہی
- مُصلحینِ مشرق
- مغربی تہذیب
- اَسرارِ پیدا
- سُلطان ٹِیپُو کی وصیّت
- غزل
- بیداری
- خودی کی تربیت
- آزادیِ فکر
- خودی کی زندگی
- حکومت
- ہندی مکتب
- تربیت
- خُوب و زِشت
- مرگِ خودی
- مہمانِ عزیز
- عصرِ حاضر
- طالبِ علم
- امتحان
- مدرَسہ
- حکیم نطشہ
- اساتِذہ
- غزل
- دِین و تعلیم
- جاوید سے
- مردِ فرنگ
- ایک سوال
- پردہ
- خَلوت
- عورت
- آزادیِ نسواں
- عورت کی حفاظت
- عورت اور تعلیم
- عورت
- دِین وہُنر
- تخلیق
- جُنوں
- اپنے شعر سے
- پیرس کی مسجد
- ادبیات
- نگاہ
- مسجدِ قُوّت الاسلام
- تِیاتَر
- شُعاعِ اُمِّید
- اُمِّید
- نگاہِ شوق
- اہلِ ہُنر سے
- غزل
- وُجود
- سرود
- نسیم و شبنم
- اَہرامِ مصر
- مخلوقاتِ ہُنر
- اقبالؔ
- فنونِ لطیفہ
- صُبحِ چمن
- خاقانیؔ
- رومی
- جِدّت
- مِرزا بیدلؔ
- جلال و جمال
- مُصّور
- سرودِ حلال
- سرودِ حرام
- فوّارہ
- شاعر
- شعرِ عجَم
- ہُنَرورانِ ہند
- مردِ بزرگ
- عالَمِ نو
- ایجادِ معانی
- موسِیقی
- ذوقِ نظر
- شعر
- رقص و موسیقی
- ضبط
- رقص
- اِشتراکِیت
- کارل مارکس کی آواز
- اِنقلاب
- خوشامد
- مناصب
- یورپ اور یہود
- نفسیاتِ غلامی
- بلشویک رُوس
- آج اور کل
- مشرق
- سیاستِ افرنگ
- خواجگی
- غلاموں کے لیے
- اہلِ مِصر سے
- ابی سِینیا
- اِبلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام
- جمعیتِ اقوام مشرق
- سُلطانیِ جاوید
- جمہُوریت
- یورپ اور سُوریا
- مسولینی
- گِلہ
- اِنتداب
- لادِین سیاست
- دامِ تہذیب
- نصیحت
- ایک بحری قزاّق اور سکندر
- جمعِیّتِ اقوام
- شام و فلسطین
- سیاسی پیشوا
- نفسیاتِ غلامی
- غلاموں کی نماز
- فلسطِینی عر ب سے
- مشرق و مغرب
- نفسیاتِ حاکمی
- میرے کُہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں
- حقیقتِ ازَلی ہے رقابتِ اقوام
- تِری دُعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
- کیا چرخِ کج رو، کیا مہر، کیا ماہ
- یہ مَدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارَو
- جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
- رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندُستان
- زاغ کہتا ہے نہایت بدنُما ہیں تیرے پَر
- عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثلِ ہوَس
- وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
- جس کے پرتوَ سے منوّر رہی تیری شبِ دوش
- لا دینی و لاطینی، کس پیچ میں اُلجھا تُو
- مجھ کو تو یہ دُنیا نظر آتی ہے دِگرگُوں
- بے جُرأتِ رِندانہ ہر عشق ہے رُوباہی
- آدم کا ضمیر اس کی حقیقت پہ ہے شاہد
- قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی
- آگ اس کی پھُونک دیتی ہے برنا و پیر کو
- یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سُوری نے
- نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد پہچانے
- فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نِگہبانی
ارمغان حجاز (1938)
[edit]- اِبلیس کی مجلسِ شُوریٰ
- بُڈھّے بلوچ کی نِصیحت بیٹے کو
- تصویر و مُصوّر
- عالمِ بَرزخ
- معزول شہنشاہ
- دوزخی کی مُناجات
- مسعود مرحوم
- آوازِ غیب
- مری شاخِ اَمل کا ہے ثمر کیا
- فراغت دے اُسے کارِ جہاں سے
- دِگرگُوں عالمِ شام و سحَر کر
- غریبی میں ہُوں محسودِ امیری
- خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
- کہا اقبالؔ نے شیخِ حرم سے
- کُہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
- حدیثِ بندۂ مومن دل آویز
- تمیزِ خار و گُل سے آشکارا
- نہ کر ذکرِ فراق و آشنائی
- ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
- خِرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
- کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
- پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
- موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
- آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
- گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہُو
- دُرّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہیں
- رِندوں کو بھی معلوم ہیں صُوفی کے کمالات
- نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری
- سمجھا لہُو کی بوند اگر تُو اسے تو خیر
- کھُلا جب چمن میں کتب خانۂ گُل
- آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ
- تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
- دِگرگُوں جہاں اُن کے زورِ عمل سے
- نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
- چہ کافرانہ قِمارِ حیات می بازی
- ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
- حاجت نہیں اے خطّۂ گُل شرح و بیاں کی
- خود آگاہی نے سِکھلا دی ہے جس کو تن فراموشی
- آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور
- غریبِ شہر ہوں مَیں، سُن تو لے مری فریاد
- سر اکبر حیدری، صدرِ اعظم حیدر آباد دکن کے نام
- حُسین احمد
- حضرتِ انسان
نثر
[edit]
Some or all works by this author are now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |