ترانۂ ملی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترانۂ ملی  (1910) 
by محمد اقبال

چِین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

دنیا کے بُت‌کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سَو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا

اے گلِستانِ اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا

اے موجِ دجلہ! تُو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا

اے ارضِ پاک! تیری حُرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خُوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا

سالارِ کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا

اقبالؔ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.