ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق  (1935) 
by محمد اقبال

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب‌خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق

علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق

مُریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ مِلے شیخ کو بھی یہ توفیق

اُسی طلسمِ کُہن میں اسیر ہے آدم
بغَل میں اس کی ہیں اب تک بُتانِ عہدِ عتیق

مرے لیے تو ہے اقرار بالِلّساں بھی بہت
ہزار شُکر کہ مُلّا ہیں صاحبِ تصدیق

اگر ہو عشق تو ہے کُفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.