الٰہی عقلِ خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سِکھا دے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الٰہی عقلِ خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سِکھا دے  (1924) 
by محمد اقبال

الٰہی عقلِ خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سِکھا دے
اسے ہے سودائے بخیہ کاری، مجھے سرِ پیرہن نہیں ہے

مِلا محبّت کا سوز مجھ کو تو بولے صبحِ ازل فرشتے
مثالِ شمعِ مزار ہے تُو، تری کوئی انجمن نہیں ہے

یہاں کہاں ہم نفَس میسّر، یہ دیس ناآشنا ہے اے دل!
وہ چیز تُو مانگتا ہے مجھ سے کہ زیرِ چرخِ کُہن نہیں ہے

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمارؐ نے بنایا
بِنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتّحادِ وطن نہیں ہے

کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیازِ عقبیٰ
نمُود ہر شے میں ہے ہماری، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے

مُدیرِ ’مخزن‘ سے کوئی اقبالؔ جا کے میرا پیام کہہ دے
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں، اُنھیں مذاقِ سخن نہیں ہے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.