نوائے غم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نوائے غم  (1924) 
by محمد اقبال

زندگانی ہے مری مثلِ ربابِ خاموش
جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش
بربطِ کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار
جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار
محشرستانِ نوا کا ہے امیں جس کا سکُوت
اور منّت کشِ ہنگامہ نہیں جس کا سکُوت
آہ! اُمیّد محبت کی بر آئی نہ کبھی
چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی

مگر آتی ہے نسیمِ چمنِ طُور کبھی
سمتِ گردُوں سے ہوائے نفَسِ حُور کبھی
چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تارِ حیات
جس سے ہوتی ہے رِہا رُوحِ گرفتارِ حیات
نغمۂ یاس کی دھیمی سی صدا اُٹھتی ہے
اشک کے قافلے کو بانگِ درا اُٹھتی ہے
جس طرح رفعتِ شبنم ہے مذاقِ رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse