پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے  (1935) 
by محمد اقبال

پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے

نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نوا فردوس میں حُوریں
مرا سوزِدُروں پھر گرمیِ محفل نہ بن جائے

کبھی چھوڑی ہُوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں، غمِ منزل نہ بن جائے

بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نِگہداری مرا ساحل نہ بن جائے

کہیں اس عالمِ بے رنگ و بُو میں بھی طلب میری
وہی افسانۂ دُنبالۂ محمل نہ بن جائے

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹُوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse