نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی  (1935) 
by محمد اقبال

نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طُغیانِ مشتاقی

مجھے فطرت نَوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی

وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھُونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوۂ ساقی!

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی برّاقی

دلوں میں ولولے آفاق‌گیری کے نہیں اُٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی

خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں صیّاد کی زد میں
مری غمّاز تھی شاخِ نشیمن کی کم اوراقی

اُلٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے، نہیں میرے تخّیل کی یہ خلّاقی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse