ایک نوجوان کے نام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک نوجوان کے نام  (1935) 
by محمد اقبال

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانیِ
لہُو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھُونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلّی میں
کہ پایا مَیں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی

عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گُنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse