دُعا (ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دُعا  (1935) 
by محمد اقبال

(مسجدِ قُرطُبہ میںلِکھّی گئی)


ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہُو
صُحبتِ اہلِ صفا، نُور و حضور و سُرور
سر خوش و پُرسوز ہے لالہ لبِ آبُجو
راہِ محبّت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
میرا نشیمن نہیں درگہِ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تُو، شاخِ نشیمن بھی تُو
تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صُبحِ نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتشِ ’اَﷲ ھو‘
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تُو ہی مری آرزو، تُو ہی مری جُستجو
پاس اگر تُو نہیں، شہر ہے ویراں تمام
تُو ہے تو آباد ہیں اُجڑے ہُوئے کاخ و کُو
پھر وہ شرابِ کُہن مجھ کو عطا کر کہ مَیں
ڈھُونڈ رہا ہوں اُسے توڑ کے جام و سُبو
چشمِ کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر
جلوَتیوں کے سُبو، خلوَتیوں کے کُدو
تیری خدائی سے ہے میرے جُنوں کو گِلہ
اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چار سُو!
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنّا، جسے کہہ نہ سکیں رُو بُرو


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.