ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں  (1935) 
by محمد اقبال

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse