مسلمان اور تعلیمِ جدید

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مسلمان اور تعلیمِ جدید  (1924) 
by محمد اقبال

تضمین بر شعرِ ملک قُمیؔ


مُرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلمِ شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دُنیا میں سامانِ سفر

بدلی زمانے کی ہوا، ایسا تغیّر آگیا
تھے جو گراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر

وہ شُعلۂ روشن ترا، ظُلمت گریزاں جس سے تھی
گھَٹ کر ہُوا مثلِ شرر تارے سے بھی کم نُور تر

شیدائیِ غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر

ممکن نہیں اس باغ میں کوشِش ہو بارآور تری
فرسُودہ ہے پھندا ترا، زِیرک ہے مُرغِ تیز پر

اس دَور میں تعلیم ہے امراضِ مِلّت کی دوا
ہے خُونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر

رہبر کے ایما سے ہُوا تعلیم کا سودا مجھے
واجب ہے صحراگرد پر تعمیل فرمانِ خضَر

لیکن نگاہِ نُکتہ‌بیں دیکھے زبُوں بختی مری
“رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دُور شد”


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.