لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے  (1924) 
by محمد اقبال

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جَلانے کے لیے

وائے ناکامی، فلک نے تاک کر توڑا اُسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے

آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملّت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے

دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے

جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چُن کے تُو
آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے

پاس تھا ناکامیِ صیّاد کا اے ہم صفیر
ورنہ مَیں، اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!

اس چمن میں مرغِ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ! یہ گُلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse