Jump to content

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی

From Wikisource
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی (1936)
by محمد اقبال
296545قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی1936محمد اقبال

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی!
جو فقر ہُوا تلخیِ دوراں کا گِلہ مند
اُس فقر میں باقی ہے ابھی بُوئے گدائی
اس دور میں بھی مردِ خُدا کو ہے میَسّر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی
در معرکہ بے سوزِ تو ذوقے نتواں یافت
اے بندۂ مومن تو کجائی، تو کجائی
خورشید! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کُہسار کو ملبوسِ حنائی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.