یہ حُوریانِ فرنگی، دل و نظر کا حجاب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ حُوریانِ فرنگی، دل و نظر کا حجاب  (1935) 
by محمد اقبال

(قُرطُبہ میں لِکھّے گئے)


یہ حُوریانِ فرنگی، دل و نظر کا حجاب
بہشتِ مغربیاں، جلوہ ہائے پا بہ رکاب

دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب

جہانِ صوت و صدا میں سما نہیں سکتی
لطیفۂ ازَلی ہے فغانِ چنگ و رباب

سِکھا دیے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی
فقیہِ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب

وہ سجدہ، روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

سُنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشۂ سیماب

ہوائے قُرطُبہ! شاید یہ ہے اثر تیرا
مری نوا میں ہے سوز و سُرورِ عہدِ شباب


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.