انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں  (1924) 
by محمد اقبال

انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

علاجِ درد میں بھی درد کی لذّت پہ مرتا ہُوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے، نوکِ سوزن سے نکالے ہیں

پھلا پھُولا رہے یا رب! چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بُوٹے مَیں نے پالے ہیں

رُلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں

نہ پُوچھو مجھ سے لذّت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

نہیں بیگانگی اچھّی رفیقِ راہِ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر، ہم بھی تو آخر مِٹنے والے ہیں

اُمیدِ حور نے سب کچھ سِکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میںسیدھے سادے، بھولے بھالے ہیں

مرے اشعار اے اقبالؔ! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹُوٹے ہُوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse