نو یدِ صبح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نو یدِ صبح  (1924) 
by محمد اقبال

۱۹۱۲ء


آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحَر
منزلِ ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر
محفلِ قُدرت کا آخر ٹُوٹ جاتا ہے سکُوت
دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت
چہچہاتے ہیں پرندے پا کے پیغامِ حیات
باندھتے ہیں پھُول بھی گُلشن میں احرامِ حیات
مسلمِ خوابیدہ اُٹھ، ہنگامہ آرا تُو بھی ہو
وہ چمک اُٹھّا اُفُق، گرمِ تقاضا تُو بھی ہو

وسعتِ عالم میں رہ پیما ہو مثلِ آفتاب
دامنِ گردُوں سے ناپیدا ہوں یہ داغِ سحاب
کھینچ کر خنجر کرن کا، پھر ہو سرگرمِ ستیز
پھر سِکھا تاریکیِ باطل کو آدابِ گریز
تُو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عُریانی تُجھے
اور عُریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے
ہاں، نمایاں ہو کے برقِ دیدۂ خفّاش ہو
اے دلِ کون ومکاں کے رازِ مضمر! فاش ہو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse