شبنم اور ستارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شبنم اور ستارے  (1924) 
by محمد اقبال

اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
ہر صبح نئے تجھ کو میّسر ہیں نظارے
کیا جانیے، تُو کتنے جہاں دیکھ چُکی ہے
جو بن کے مِٹے، اُن کے نشاں دیکھ چُکی ہے
زُہرہ نے سُنی ہے یہ خبر ایک مَلک سے
انسانوں کی بستی ہے بہت دُور فلَک سے
کہہ ہم سے بھی اُس کشورِ دلکش کا فسانہ
گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ

اے تارو نہ پُوچھو چمَنِستانِ جہاں کی
گُلشن نہیں، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر
بے چاری کلی کھِلتی ہے مُرجھانے کی خاطر
کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے
ننھّا سا کوئی شُعلۂ بے سوز کلی ہے
گُل نالۂ بُلبل کی صدا سُن نہیں سکتا
دامن سے مرے موتیوں کو چُن نہیں سکتا
ہیں مُرغِ نواریز گرفتار، غضب ہے
اُگتے ہیں تہِ سایۂ گُل خار، غضب ہے
رہتی ہے سدا نرگسِ بیمار کی تَر آنکھ
دل طالبِ نظّارہ ہے، محرومِ نظر آنکھ
دل سوختۂ گرمیِ فریاد ہے شمشاد
زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد
تارے شررِ آہ ہیں انساں کی زباں میں
میں گریۂ گردُوں ہوں گُلستاں کی زباں میں
نادانی ہے یہ گِردِ زمیں طوف قمر کا
سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا
بنیاد ہے کاشانۂ عالم کی ہوا پر
فریاد کی تصویر ہے قرطاسِ فضا پر

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse