پر ندے کی فریاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پرندے کی فر یاد  (1924) 
by محمد اقبال

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مُسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!

کیا بد نصیب ہوں مَیں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، مَیں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار، کلیاں پھُولوں کی ہنس رہی ہیں
مَیں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الٰہی! دُکھڑا کسے سُناؤں
ڈر ہے یہیں قفسں میں مَیں غم سے مر نہ جاؤں

جب سے چمن چھُٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے
دُکھّے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!
مَیں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دُعا لے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse