سیرِ فلک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سیرِ فلک  (1924) 
by محمد اقبال

تھا تخیُّل جو ہم سفر میرا
آسماں پر ہُوا گزر میرا
اُڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی
جاننے والا چرخ پر میرا
تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے
رازِ سر بستہ تھا سفر میرا
حلقۂ صُبح و شام سے نکلا
اس پُرانے نظام سے نکلا

کیا سُناؤں تمھیں اِرم کیا ہے
خاتمِ آرزُوئے دیدہ و گوش
شاخِ طُوبیٰ پہ نغمہ ریز طُیور
بے حجابانہ حُور جلوہ فروش
ساقیانِ جمیل جام بدست
پینے والوں میں شورِ نوشانوش
دُور جنّت سے آنکھ نے دیکھا
ایک تاریک خانہ، سرد و خموش
طالعِ قیس و گیسوئے لیلیٰ
اُس کی تاریکیوں سے دوش بدوش
خُنک ایسا کہ جس سے شرما کر
کُرۂ زمہریر ہو رُوپوش
مَیں نے پوچھی جو کیفیت اُس کی
حیرت انگیز تھا جوابِ سروش
یہ مقامِ خُنک جہنّم ہے
نار سے، نُور سے تہی آغوش
شعلے ہوتے ہیں مُستعار اس کے
جن سے لرزاں ہیں مردِ عبرت کوش
اہلِ دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.