چاند (اے چاند! حُسن تیرا فطرت کی آبرو ہے)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاند  (1924) 
by محمد اقبال

اے چاند! حُسن تیرا فطرت کی آبرو ہے
طوفِ حریمِ خاکی تیری قدیم خو ہے
یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
عاشق ہے تُو کسی کا، یہ داغِ آرزو ہے؟
میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تُو فلَک پر
تُجھ کو بھی جُستجو ہے، مجھ کو بھی جُستجو ہے
انساں ہے شمع جس کی، محفل وہی ہے تیری؟
میں جس طرف رواں ہوں، منزل وہی ہے تیری؟

تُو ڈھُونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں
پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں
اِستادہ سرْو میں ہے، سبزے میں سو رہا ہے
بُلبل میں نغمہ زن ہے، خاموش ہے کلی میں
آ! میں تجھے دِکھاؤں رُخسارِ روشن اس کا
نہروں کے آئنے میں، شبنم کی آرسی میں
صحرا و دشت و در میں، کُہسار میں وہی ہے
انساں کے دل میں، تیرے رُخسار میں وہی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse