یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی  (1935) 
by محمد اقبال

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی

نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تُو نے
مجھے کیا گِلہ ہو تجھ سے، تُو نہ رہ‌نشیں نہ راہی

مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیرِ تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسمِ کجکلاہی

یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی

تُو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مُرغ و ماہی

تُو عَرب ہو یا عجَم ہو، ترا ’ لَا اِلٰہ اِلاَّ‘
لُغَتِ غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse