Jump to content

دگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

From Wikisource
دِگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی (1935)
by محمد اقبال
296141دِگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی1935محمد اقبال

دِگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرّہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی

متاعِ دین و دانش لُٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خُوں‌ریز ہے ساقی

وہی دیرینہ بیماری، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی

حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی

نہ اُٹھّا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ‌زاروں سے
وہی آب و گِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی

نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی

فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سُلطانی
بَہا میری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.