طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام  (1924) 
by محمد اقبال

اَوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سُن چُکے ہو تم
یہ بھی سُنو کہ نالۂ طائرِ بام اور ہے

آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکُوں
کہتا تھا مورِ ناتواں لُطفِ خرام اور ہے

جذبِ حرم سے ہے فروغ انجمنِ حجاز کا
اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے

موت ہے عیشِ جاوداں، ذوقِ طلب اگر نہ ہو
گردشِ آدمی ہے اور، گردشِ جام اور ہے

شمعِ سحَر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غم کدۂ نمود میں شرطِ دوام اور ہے

بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خُم کے سر پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.