مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا  (1935) 
by محمد اقبال

(کابل میں لِکھّے گئے)


مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مرّوت حُسنِ عالم‌گیر ہے مردانِ غازی کا

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

بہت مدّت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ مَیں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا

قلندر جُز دو حرفِ لااِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہائے حجازی کا

حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

کہاں سے تُونے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse