ہمدردی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہمدردی  (1924) 
by محمد اقبال

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چُگنے میں دن گزارا

پہنچوں کِس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

سُن کر بُلبل کی آہ و زاری
جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا

حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے
کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
مَیں راہ میں روشنی کروں گا

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse