ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ  (1938) 
by محمد اقبال

ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دِگرگُوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
کنارِ دریا خضَر نے مجھ سے کہا بہ اندازِ محرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
اُنھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردُوں ہے بے کرانہ
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہُوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
مری اسیری پہ شاخِ گُل نے یہ کہہ کے صیّاد کو رُلایا
کہ ایسے پُرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse