موجِ دریا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موجِ دریا  (1924) 
by محمد اقبال

مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے
عینِ ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گِرداب مجھے
آب میں مثلِ ہوا جاتا ہے توسَن میرا
خارِ ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا

میں اچھلتی ہوں کبھی جذبِ مہِ کامل سے
جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوں تڑپتی ہوں، یہ پُوچھے کوئی میرے دل سے
زحمتِ تنگیِ دریا سے گریزاں ہوں میں
وسعتِ بحر کی فُرقت میں پریشاں ہوں مَیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse