خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے  (1935) 
by محمد اقبال

خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ مَیں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

مقامِ گُفتگو کیا ہے اگر مَیں کیمیاگر ہوں
یہی سوزِ نفَس ہے، اَور میری کیمیا کیا ہے!

نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں
نہ پُوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے

نوائے صُبح‌گاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse