لالۂ صحرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لالۂ صحرا  (1935) 
by محمد اقبال

یہ گُنبدِ مِینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہُوا راہی مَیں، بھٹکا ہُوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تُو شعلۂ سینائی، مَیں شعلۂ سینائی!
تُو شاخ سے کیوں پھُوٹا، مَیں شاخ سے کیوں ٹُوٹا
اک جذبۂ پیدائی، اک لذّتِ یکتائی!
غوّاصِ محبّت کا اللہ نِگہباں ہو
ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
اُس موج کے ماتم میں روتی ہے بھَنْور کی آنکھ
دریا سے اُٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ہے گرمیِ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سُورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی
اے بادِ بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی!

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse