گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گیسوئے تاب‌دار کو اور بھی تاب‌دار کر  (1935) 
by محمد اقبال

گیسوئے تاب‌دار کو اور بھی تاب‌دار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر

عشق بھی ہو حجاب میں، حُسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

تُو ہے محیطِ بےکراں، میں ہُوں ذرا سی آبُجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

میں ہُوں صدَف تو تیرے ہاتھ میرے گُہر کی آبرو
میں ہُوں خزَف تو تُو مجھے گوہرِ شاہوار کر

نغمۂ نَو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دمِ نیم سوز کو طائرکِ بہار کر

باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر

روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.