Jump to content

پھر بادِ بہار آئی، اقبال غزل خواں ہو

From Wikisource
پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو (1924)
by محمد اقبال
296089پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو1924محمد اقبال

پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گُلستاں ہو

تُو خاک کی مُٹھّی ہے، اجزا کی حرارت سے
برہم ہو، پریشاں ہو، وسعت میں بیاباں ہو

تُو جنسِ محبّت ہے، قیمت ہے گراں تیری
کم مایہ ہیں سوداگر، اس دیس میں ارزاں ہو

کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لَے تیری
تُو نغمۂ رنگیں ہے، ہر گوش پہ عُریاں ہو

اے رہروِ فرزانہ! رستے میں اگر تیرے
گُلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو

ساماں کی محبّت میں مُضمَر ہے تن آسانی
مقصد ہے اگر منزل، غارت گرِ ساماں ہو


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.