نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی  (1924) 
by محمد اقبال

نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!

تامّل تو تھا اُن کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

کھِنچے خود بخود جانبِ طُور موسیٰؑ
کشش تیری اے شوقِ دیدار کیا تھی!

کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا
فسوں تھا کوئی، تیری گُفتار کیا تھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse