دلیلِ مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دلیلِ مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی  (1924) 
by محمد اقبال

دلیلِ مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی
نہ ہو حضور سے اُلفت تو یہ ستم نہ سہیں

مُصِر ہے حلقہ، کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی
مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں

سنَد تو لیجیے، لڑکوں کے کام آئے گی
وہ مہربان ہیں اب، پھر رہیں، رہیں نہ رہیں

زمین پر تو نہیں ہندیوں کو جا ملتی
مگر جہاں میں ہیں خالی سمندروں کی تہیں

مثالِ کشتیِ بے حس مطیعِ فرماں ہیں
کہو تو بستۂ ساحل رہیں، کہو تو بہیں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.