Jump to content

جس کے پرتوَ سے منوّر رہی تیری شبِ دوش

From Wikisource
جس کے پرتوَ سے منوّر رہی تیری شبِ دوش (1936)
by محمد اقبال
296540جس کے پرتوَ سے منوّر رہی تیری شبِ دوش1936محمد اقبال

جس کے پرتوَ سے منوّر رہی تیری شبِ دوش
پھر بھی ہو سکتا ہے روشن وہ چراغِ خاموش
مردِ بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گِلہ
بندۂ حُر کے لیے نشترِ تقدیر ہے نوش
نہیں ہنگامۂ پیکار کے لائق وہ جواں
جو ہُوا نالۂ مُرغانِ سحر سے مَدہوش
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیّار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.