پُھولوں کی شہزادی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پُھولوں کی شہزادی  (1924) 
by محمد اقبال

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گُلستاں میں
رہی مَیں ایک مدّت غنچہ ہائے باغِ رضواں میں
تمھارے گُلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی
نِگہ فردوس در دامن ہے میری چشمِ حیراں میں
سُنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گُلستاں کی
کہ جس کے نقشِ پا سے پھُول ہوں پیدا بیاباں میں
کبھی ساتھ اپنے اُس کے آستاں تک مجھ کو تُو لے چل
چھُپا کر اپنے دامن میں برنگِ موجِ بُو لے چل

کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی
درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھّر بھی نگیں بن کر
مگر فطرت تری اُفتندہ اور بیگم کی شان اونچی
نہیں ممکن کہ تُو پہنچے ہماری ہم‌نشیں بن کر
پہنچ سکتی ہے تُو لیکن ہماری شاہزادی تک
کسی دُکھ درد کے مارے کا اشکِ آتشیں بن کر
نظر اُس کی پیامِ عید ہے اہلِ مُحرّم کو
بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشکِ پیہم کو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse