اے بادِ صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے بادِ صبا! کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا  (1924) 
by محمد اقبال

اے بادِ صبا! کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا
قبضے سے اُمّت بیچاری کے دِیں بھی گیا، دنیا بھی گئی

یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا
ہے دُور وصالِ بحر ابھی، تُو دریا میں گھبرا بھی گئی!

عزّت ہے محبّت کی قائم اے قیس! حجابِ محمل سے
محمل جو گیا عزّت بھی گئی، غیرت بھی گئی، لَیلا بھی گئی

کی ترک تگ‌ودو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی مِلی
آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کشمکشِ دریا بھی گئی

نکلی تو لبِ اقبالؔ سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا
پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse