بچہّ اور شمع

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بچّہ اور شمع  (1924) 
by محمد اقبال

کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خُو!
شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو
یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جُنبش ہے کیا
روشنی سے کیا بغَل گیری ہے تیرا مدّعا؟
اس نظارے سے ترا ننھّا سا دل حیران ہے
یہ کسی دیکھی ہُوئی شے کی مگر پہچان ہے

شمع اک شعلہ ہے لیکن تُو سراپا نور ہے
آہ! اس محفل میں یہ عُریاں ہے تُو مستور ہے
دستِ قُدرت نے اسے کیا جانے کیوں عُریاں کیا!
تُجھ کو خاکِ تِیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا
نور تیرا چھُپ گیا زیرِ نقابِ آگہی
ہے غبارِ دیدۂ بینا حجابِ آگہی
زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ
خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ

محفلِ قُدرت ہے اک دریائے بے پایانِ حُسن
آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن
حُسن، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے
مِہر کی ضوگستری، شب کی سِیہ پوشی میں ہے
آسمانِ صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ
شام کی ظُلمت، شفَق کی گُل فرو شی میں ہے یہ
عظمتِ دیرینہ کے مِٹتے ہُوئے آثار میں
طفلکِ ناآشنا کی کوششِ گُفتار میں
ساکنانِ صحنِ گُلشن کی ہم آوازی میں ہے
ننھّے ننھّے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے
چشمۂ کُہسار میں، دریا کی آزادی میں حُسن
شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حُسن
رُوح کو لیکن کسی گُم گشتہ شے کی ہے ہوس
ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس!
حُسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے
زندگی اس کی مثالِ ماہیِ بے آب ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse