یوں تو اے بزمِ جہاں! دِلکش تھے ہنگامے ترے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں تو اے بزمِ جہاں! دِلکش تھے ہنگامے ترے  (1924) 
by محمد اقبال

یوں تو اے بزمِ جہاں! دِلکش تھے ہنگامے ترے
اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی

پا گئی آسودگی کُوئے محبّت میں وہ خاک
مُدّتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی

کس قدر اے مے! تجھے رسمِ حجاب آئی پسند
پردۂ انگور سے نکلی تو مِیناؤں میں تھی

حُسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی

میں نے اے اقبالؔ یورپ میں اُسے ڈھونڈا عبث
بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse