بلال (لِکھّا ہے ایک مغربیِ حق شناس نے)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بلالؓ  (1924) 
by محمد اقبال

لِکھّا ہے ایک مغربیِ حق شناس نے
اہلِ قلم میں جس کا بہت احترام تھا
جولاں گہِ سکندرِ رومی تھا ایشیا
گردُوں سے بھی بلند تر اُس کا مقام تھا
تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے
دعویٰ کِیا جو پورس و دارا نے، خام تھا
دنیا کے اُس شہنشہِ انجم سپاہ کو
حیرت سے دیکھتا فلکِ نیل فام تھا
آج ایشیا میں اُس کو کوئی جانتا نہیں
تاریخ دان بھی اُسے پہچانتا نہیں

لیکن بِلالؓ، وہ حبَشی زادۂ حقیر
فطرت تھی جس کی نُورِ نبوّت سے مُستنیر
جس کا امیں ازل سے ہُوا سینۂ بِلالؓ
محکوم اُس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر
ہوتا ہے جس سے اسوَد و احمر میں اختلاط
کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر
ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز
صدیوں سے سُن رہا ہے جسے گوشِ چرخِ پیر
اقبالؔ! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہُوا، حبَشی کو دوام ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse